Monday, March 16, 2009

محمد حمید شاہد-اُردو اَفسانہ : صورت و معنٰی


اُردو اَفسانہ : نیا تنقیدی منہاج
یٰسین آفاقی


یہ کوئی ایک برس پہلے کا واقعہ ہے کہ ”آفاق“ راولپنڈی نے محمد حمید شاہد کی اَفسانہ نگاری کے اعتراف میں ایک خصوصی گوشہ مختص کیا تھا جس میں ان کے تازہ افسانوں کی شمولیت کے باوصف اس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا کہ ہم عصر لکھنے والے ان کے فن کا جائزہ لیں ۔ محمد حمید شاہد ان اَفسانہ نگاروں میں بہت نمایاں ہیں جن کو گزشتہ ربع میں توجہ ملی۔ انہوں نے اپنے خالص تخلیقی رویوں سے اپنے اَفسانے کو دوسروں سے الگ اور نمایاں کیا ہے ۔ ان کی اَفسانہ نگاری اس لائق ہے کہ اس پر مزید کام ہوناچاہیے ۔ میں محمد حمید شاہد سے اصرار کرتا آیا ہوں کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ”اَدبی تنازعات “ کے بعد اُن کے فکشن اور خصوصاً اُردو اَفسانے کے حوالے سے لکھے گئے مضامین کو بھی کتابی صورت میں شائع ہونا چاہیے ۔ اِس سلسلے میں ‘ میں نے مضامین کی ایک فہرست بنا کر اُن کے حوالے کر دی تھی ۔ میرا خیال تھا کہ اِن مضامین کی بنیاد پر فکشن کے مباحث کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں جب میں نے ایک بار پھر محمد حمید شاہد کی توجہ اس طرف دلائی تو اُنہوں نے میری بنائی ہوئی فہرست مجھے لوٹاتے ہوئے کہا کہ آپ ہی اِنہیں جمع کرکے ترتیب دے لیں۔ یوں اِن مضامین کو ایک کتاب میں مجتمع کرنے کی صورت نکلی ہے۔
محمد حمید شاہد کے یہ مضامین ”آئندہ“ کراچی،”سمبل“ راولپنڈی،مکالمہ “ کراچی، ”آفاق “ راولپنڈی،”دُنیا زاد“ کراچی اور”اَدبیات“ اِسلام آبادسے لیے گئے ہیں۔ وہ مضامین جن میں پریم چند ‘ منٹو ‘ بیدی سے لے کرانتظار حسین‘انور سجاد‘ منشایاد ‘رشید امجد اورخالدہ حسین تک یاپھر گزشتہ ربع صدی میں شناخت پانے والے اَفسانہ نگاروںکے فن کا الگ الگ جائزہ لیا گیا ہے انہیں اس کتاب کی دوسری جلد کے لیے محفوظ کر لیا گیا ہے ۔ اس کتاب میں صرف ان مضامین کو شامل کیا گیا ہے جن میں نظری مباحث اُٹھائے گئے ہیں ‘ اَفسانے کی ایک صدی کی مجموعی صورتحال کو انفرادی تخلیقی جوہر کے حوالے سے دیکھا گیا ہے یا پھر تخلیقی عمل کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ آخرمیں محمد حمید شاہد کا ”میرا تخلیقی عمل“ کے سلسلے میں حلقہ ارباب ذوق‘راولپنڈی میں ہونے والا مکالمہ بھی منیر فیاض کے شکریے کے ساتھ شامل کیا جارہا ہے کہ اس میں بھی فی الاصل اُردو اَفسانہ ہی موضوع بنا ہے ۔ اسے جناب شمس الرحمن فاروقی نے اہم مکالمہ قرار دے کر ”شب خون “ الہ آباد میں بھی شائع کیا تھا۔
میں محمد حمید شاہد کے مضامین کے یک جا ہونے کا مطالبہ اس لیے بھی کر رہا تھا کہ فکشن کی تنقید کا مجموعی کام اور خصوصاً اَفسانے کے حوالے سے نظری مباحث میری نگاہ میں تھے ۔ اُردو میں فکشن کی تنقید کا زیادہ تر کام عمومی نوعیت کا ہے جو کتابوں پر تبصرے ‘ رجحانات کے جائزے ‘ موضوعات کی فہرست سازی یا پھر نام گنوا نے تک محدود ہے۔ بہت ہوا تو انتخاب چھاپ دیئے گئے۔ دوچار مضامین ابتدا میں لگا دیئے گئے یا پھر تجزیاتی مطالعے کے نام پر چند اَفسانوں کی تشریح کردی گئی ۔ اس کام کی اہمیت اپنی جگہ لیکن گزشتہ صدی میں اس صنف کے خدوخال اُبھارنے کے لیے نظری مباحث کوزیر بحث لانے والی کتابیں اُنگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں :
َ معیار ممتاز شیریں ۳۶۹۱ئ
نئے اَفسانے کا سلسلہ عمل مہدی جعفر ۱۸۹۱ئ
اَفسانے کی حمایت میں شمس الرحمن فاروقی ۲۸۹۱ئ
جدید اَفسانہ اور اس کے مسائل وارث علوی ۰۹۹۱ ئ
عصری اَفسانے کا فن مہدی جعفر ۸۹۹۱ئ
نئی افسانوی تقلیب مہدی جعفر ۹۹۹۱ئ
فکشن کی تنقید :چند مباحث عابد سہیل ۰۰۰۲ ئ
ان کتب کے علاوہ محمد حسن عسکری‘ گوپی چند نارنگ‘ انیس ناگی اور کچھ دوسرے ناقدین نے اپنے بعض مضامین میں اَفسانے کے تصوراتی پہلووں پر نکتہ آفرینی کی ہے تاہم جب تک فکشن کے نقاد ان جیسے سوالات کے مقابل نہیں ہوتے کہ اَفسانہ کیا ہے؟ کیا نہیں ہے؟ اور اِسے کیسا ہونا چاہیے؟ تب تک گہری تنقید کا در نہیں کھل سکتا ۔

ز

ہمارے ہاںمغربی تنقید کے زیر اثر اَفسانے کو ناول کی فرع سمجھ کر اس کے تنقیدی پیمانوں سے پرکھنے کا رواج رہا ہے ۔ محمد حمید شاہد نے اسے روا نہیں رکھا۔ ان کے نزدیک چوں کہ اَفسانہ ناول کی تصغیری صورت نہیں لہذا ان کے ہاں اَفسانے کی تنقید کی جداگانہ حیثیت قائم ہوئی ہے ۔ اُردو اَفسانے کا وجود بھی اس نکتہ میں ہے کہ وہ ناول نہیں ۔ مغرب میں ناول اور اَفسانہ کو الگ الگ اصناف ثابت کرنے کے لیے زیادہ تر طرزِ بیان اور اس کی تشکیل کو زیر بحث لایا گیا ہے لیکن یہ سوال اب تک موجود ہے کہ وہ کون سے خصائص ہیں یا ہو سکتے ہیں جو اَفسانہ کو ناول سے الگ کر دیتے ہیں؟ اس ضمن میں محمد حمید شاہد کا خیال ہے کہ اُردو میں ناول ہو یا ناولٹ انہیں اُردو اَفسانے کی توسیع سمجھنا چاہیے کیوں کہ ہمارے ہاں فکشن کی کوئی بھی فرع ہو اس کا اَفسانے کی مستحکم روایت کے اثرات سے بچ نکلنا ممکن نہیں ۔ اَفسانے کو انہوں نے یوں پایا ہے کہ جیسے وہ کائنات کو کلاوے میں لینے کے جتن کر رہا ہو۔
محمد حمید شاہد نے”شارٹ سٹوری“ کو مختصر اَفسانہ نہیں ‘اَفسانہ کہا ہے اور اَفسانے کی تنقید کو فکشن کی تنقید قرار دیا ہے۔ انہوں نے اَفسانہ لکھنے کے عمل کو”زندگی کی تخلیق ِنو“ گردانا ہے۔ اس باب میں ان کا بیان ہے کہ وہ نثر میں تخلیق کے امکانات کا ایسا سمندر دیکھتے ہیں جس کا کوئی کنارا نہیں ہے ۔ کہانی بھی اُن کے نزدیک تخلیق ہی کی ایک اکائی ہے۔ لہذا اُنہوں نے اِسے سمجھنے کے لیے الگ سے تخلیقی پیمانے وضع کرنے پر اصرار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی تخلیقی صنف کے پھلنے پھولنے کے لیے ایک صدی کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اُردو اَفسانہ محض صدی بھر کے عرصے میں عالمی اَفسانے سے کمتر معیار کا حامل نہیں رہا ہے۔ اس کا سبب انہوں نے مشرق کے اس بھید کو قرار دیا ہے جو اَفسانے کے متن کو عمومی سطح سے بلند کر دیتا ہے ۔
محمد حمید شاہد نے بیسویں صدی کو اَفسانے کی صدی قرار دیتے ہوئے اُردو اَفسانے کی ساری پیش رفت کو ایک مربوط اور مسلسل تخلیقی عمل کی صورت میں دیکھا ہے۔ ایک صدی میں لکھے گئے اُردو کے اَفسانوںکو سامنے رکھ کرا ُن کا مجموعی مزاج متعین کیا ہے ۔ میں نے محمد حمید شاہد کی فکشن کی تنقید کو نیا تنقیدی منہاج کہا ہے تواس کاسبب ان کا وہ طرز احساس ہے جسے بروئے کار لاتے ہوئے وہ تخلیقی عمل کو سمجھنے کے لیے الگ بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اَفسانہ لکھنا دراصل تخلیقی عمل کی برتر سطح کو چھونے کا عمل ہے ۔ وہ معنی کی تکثیریت اور جمال کی ہمہ گیری کو تخلیقی عمل کے بڑے مظاہر کے طور پر شناخت کرتے ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ ان مظاہر کا تعلق خارجی ہیئت سے کہیں زیادہ باطنی امیج سے ہوتا ہے جو اشیائے مدرکہ کو اپنے حیطہ اکتشاف میں لے لینے کی سکت رکھتا ہے۔ محمد حمید شاہد کے نزدیک تخلیقیت کا بھید یہی ہے کہ متن کس طرح اور کس حد تک لفظوں کے باطنی امیج کے روشن کناروں سے جڑجاتا ہے۔ تخلیقی عمل کو گہرائی میں جاکردیکھنے کے بعد انہوں نے بجا طور پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ زندگی کے تنوع اور اس کی ہمہ گیری کو ہر اعتبار سے اَفسانے میں اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ان کا موقف ہے کہ نثر کا اپنا ایک آہنگ ہوتا ہے جس میں زمانوں کی دھمک سما سکتی ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نے ”اَفسانے کی حمایت میں“ میں ممتاز شیریں کی بابت لکھا تھاکہ وہ بیانیہ سے ایسا فکشن مراد لیتی ہیں جس میں مکالمہ بہت کم ہو یا سرے سے ہو ہی نہیں اور ساری کہانی واحد حاضر یا مرکزی کردار کے نقطہ نگاہ یا اس کے شعور کے حوالے سے لکھی جائے۔ فاروقی صاحب نے بیانیہ کے حوالے سے اپنا الگ تصور دیا مگر محمد حمید شاہد نے اس باب میں ممتاز شیریں کے مو¿قف کو مانا ہے نہ فاروقی صاحب کی پیروی کو مناسب جانا بلکہ اسے الگ انداز سے جانچنے پر اصرار کیا ہے۔ یوں فکشن کے بیانیے کو سمجھنے کے لیے الگ بنیاد یںفراہم ہو گئی ہیں ۔
یہی معاملہ فکشن کے کرداروں کی تفہیم کا ہے ۔ اَفسانے میں وقت کا تصور کیا ہوتا ہے؟ کیا واقعہ کہانی کے متن میں وقت کے ساتھ بندھا ہوتا ہے ؟ علامت سے کیا مراد ہے ؟کوئی کردار ‘ واقعہ یا پھر پوری کہانی کیسے علامتی سطح کو چھونے لگتی ہے ؟کہانی میں کرداروں کے تناظر کا تعین کیسے ہوتا ہے ؟ اَفسانے میںواقعہ قائم ہونے کی بنیادی شرائط کیا ہیں؟ فکشن کا جملہ کیسے بنتا ہے ؟ الفاظ کب اورکیسے کلیشے ہو کر تخلیقی متن تشکیل دینے میں ناکام ہو جانے ہیں؟ اَفسانے میں اسلوب سے کیا مراد ہے اور یہ کیسے بنتا ہے ؟کہانی کو اَفسانے میں پلٹا دینے سے کیا مراد ہے؟ اَفسانہ نگار لکھتے ہوئے کون کون سے وسائل بروئے کار لاتا ہے؟ ایک ہی موضوع اور لگ بھگ ایک سے وسائل استعمال کرنے والے کیسے اور کیوں مختلف ہو جاتے ہیں ؟ حقیقت کیا ہے اور اَفسانے میں حقیقت کا تصور کیا ہے یا پھر کیا ہونا چاہیے؟ گزشتہ ربع صدی میں لکھے جانے والے اَفسانے کی الگ شناخت کیسے قائم ہوتی ہے ؟ اَفسانے کی صورت دہشت کے اس نئے زمانے میں کیا ہے؟ سمعی روایت میں کہانی کا چلن کیا تھا اور نئی صورت میں اس کی کیا روایت قائم ہوتی ہے؟ ان سوالات کے سلسلے میں نظری مباحث اُٹھاتے ہوئے محمد حمید شاہد بیش تر مقامات پرالگ ہو گئے ہیں ۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ خود تخلیق کار ہیںاور تنقید لکھتے ہوئے فکشن کا تخلیقی عمل اُن کے ساتھ رہتا ہے۔ اَفسانے کی تنقید کے لیے فکشن کے ٹولز کی تلاش اور استعمال بھی اُن کے تنقیدی عمل کا اختصاص بنتا ہے ۔
اِس کتاب کے مطالعے کے بعد آپ محسوس کریں گے کہ وہ مباحث جو اب تکءاُردو اَفسانے کی تنقید کے حاشیے پر تھے اب تنقیدی متن کا حصہ بن گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی نقاد کے ہاں نئے تنقیدی ضابطے کی تشکیل اس وقت ہوتی ہے جب وہ یہ طے کر لیتا ہے کہ ادب کیوں تخلیق کیا جائے اور زیرِ بحث صنف ادب سے اس کی مراد کیا ہے ؟ یہی استفسارات محمد حمید شاہد کی تنقید کے بنیادی سروکار رہے ہیں۔ ان سوالات کے مقابل ہو کر اُس نے اَفسانے کی تنقید کے ساتھ ایک نیا رشتہ قائم کیا ہے جو اَفسانے کی قدر و قیمت کا تعین کرنے کے حوالے سے ہمارے تنقیدی شعور میں اضافے کا باعث بنے گا ۔
کتاب کا نام محمد حمید شاہد کے مضامین میں شامل ایک مضمون ”اُردو اَفسانہ : صورت و معنٰی“سے لیا گیا ہے اور اِس عنوان کی تصدیق اُن سے حاصل کر لی ہے۔ اس کی معنویت ان مضامین سے بھی آشکارہوتی ہے ۔ اِنتساب کے ضمن میں یہ کہنا ہے کہ یہ مکمل طور پر مصنف کی منشا کے مطابق ہے۔

یٰسین آفاقی
شعبہ اُردو‘ ایف ۔جی۔ سرسید کالج ‘راولپنڈی